BackBack

Intikhab-e-Kalam-e-Dagh

Dagh Dehlvi

Rs. 251 – Rs. 429

داغ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔ غزل ان کی محبوب صنف سخن ہے۔ داغ نے اپنی شاعری میں عاشقانہ زندگی کی بہترین مرقع کشی کی ہے اور ان کی کہی ہوئی غزلیں اس بات کا ثبوت پیش کرتی ہیں۔ اُن کے اشعار میں ترنم ، دلکشی اور سوز... Read More

PaperbackPaperback
HardboundHardbound
Rs. 279 Rs. 251
POD Sample
"This book is print-on-demand, so please expect delivery within 8 to 10 working days."
x
dummyPodimage1
dummyPodimage2
dummyPodimage3
dummyPodimage4
dummyPodimage5
dummyPodimage6
dummyPodimage7
dummyPodimage8
dummyPodimage9
dummyPodimage10
Reviews

Customer Reviews

Be the first to write a review
0%
(0)
0%
(0)
0%
(0)
0%
(0)
0%
(0)
Description
داغ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔ غزل ان کی محبوب صنف سخن ہے۔ داغ نے اپنی شاعری میں عاشقانہ زندگی کی بہترین مرقع کشی کی ہے اور ان کی کہی ہوئی غزلیں اس بات کا ثبوت پیش کرتی ہیں۔ اُن کے اشعار میں ترنم ، دلکشی اور سوز و گداز بدرجہ اتم موجود ہے۔ داغ نے غزل جیسی روایتی صنف سخن میں ایک دلکش اور منفرد اسلوب کی بنیاد ڈالی ہے ۔ایک طویل عرصہ گزرنے کے باوجود بھی داغ کی شاعری اپنا خاص اثر رکھتی ہے۔ داغ کو دو لحاظ سے اہمیت حاصل ہے۔ ایک تو بلحاظ زبان، کہ ان کے ساتھ دہلی اور دوسرے لکھنوی شاعری کے آخری اثرات ان کی ذات میں جمع ہو گئے۔ گویا داغ کی غزل میں دہلی اور لکھنو کا امتزاج ہے۔ عشق و عاشقی ان کے لیے ایک سنجیدہ، متین یا مہذب طرز عمل نہیں بلکہ کھیلنے اور چسکے کی چیز ہے۔ انہیں نہ احترام عشق ہے اور نہ پاس ناموس، بس اپنا مطلب نکالنے سے غرض ہے۔ اسی لیے محبوب سے چھیڑ چھاڑ کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ وہ عاشق جو مومن کے یہاں محض ہرجائی تھا وہ داغ کے یہاں ہوس پرست بلکہ رنڈی باز کے روپ میں ظاہر ہوتا ہے۔ اس لیے ابتذال ، عریانی اور فحاشی سبھی کچھ موجود ہے۔ زبان میں صفائی کے ساتھ ساتھ محاورہ بندی کا بھی بہت خیال رکھتے ہیں۔ جو کہ استاد ذوق کا اثر ہے۔زیر نظر کتا ب داغ دہلوی کا منتخب کلام ہے۔ جس کو مسعود الحسن صدیقی نے مرتب کیا ہے۔
Additional Information
Book Type

Paperback, Hardbound

Publisher Hali Publishing House
Language Urdu
ISBN -
Pages 144
Publishing Year -

Intikhab-e-Kalam-e-Dagh

داغ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔ غزل ان کی محبوب صنف سخن ہے۔ داغ نے اپنی شاعری میں عاشقانہ زندگی کی بہترین مرقع کشی کی ہے اور ان کی کہی ہوئی غزلیں اس بات کا ثبوت پیش کرتی ہیں۔ اُن کے اشعار میں ترنم ، دلکشی اور سوز و گداز بدرجہ اتم موجود ہے۔ داغ نے غزل جیسی روایتی صنف سخن میں ایک دلکش اور منفرد اسلوب کی بنیاد ڈالی ہے ۔ایک طویل عرصہ گزرنے کے باوجود بھی داغ کی شاعری اپنا خاص اثر رکھتی ہے۔ داغ کو دو لحاظ سے اہمیت حاصل ہے۔ ایک تو بلحاظ زبان، کہ ان کے ساتھ دہلی اور دوسرے لکھنوی شاعری کے آخری اثرات ان کی ذات میں جمع ہو گئے۔ گویا داغ کی غزل میں دہلی اور لکھنو کا امتزاج ہے۔ عشق و عاشقی ان کے لیے ایک سنجیدہ، متین یا مہذب طرز عمل نہیں بلکہ کھیلنے اور چسکے کی چیز ہے۔ انہیں نہ احترام عشق ہے اور نہ پاس ناموس، بس اپنا مطلب نکالنے سے غرض ہے۔ اسی لیے محبوب سے چھیڑ چھاڑ کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ وہ عاشق جو مومن کے یہاں محض ہرجائی تھا وہ داغ کے یہاں ہوس پرست بلکہ رنڈی باز کے روپ میں ظاہر ہوتا ہے۔ اس لیے ابتذال ، عریانی اور فحاشی سبھی کچھ موجود ہے۔ زبان میں صفائی کے ساتھ ساتھ محاورہ بندی کا بھی بہت خیال رکھتے ہیں۔ جو کہ استاد ذوق کا اثر ہے۔زیر نظر کتا ب داغ دہلوی کا منتخب کلام ہے۔ جس کو مسعود الحسن صدیقی نے مرتب کیا ہے۔