Siyah Ainey
Siyah Ainey

Siyah Ainey

Regular price ₹ 1,000
Sale price ₹ 1,000 Regular price
Unit price
Save
Size guide

Pay On Delivery Available

Rekhta Certified

7 Day Easy Return Policy

Siyah Ainey

Siyah Ainey

Cash-On-Delivery

Cash On Delivery available

Plus (F-Assured)

7-Days-Replacement

7 Day Replacement

Product description
Shipping & Return
Offers & Coupons
Read Sample
Product description

Siyah Ainey

Farooq Khalid

Shipping & Return
  • Sabr– Your order is usually dispatched within 24 hours of placing the order.
  • Raftaar– We offer express delivery, typically arriving in 2-5 days. Please keep your phone reachable.
  • Sukoon– Easy returns and replacements within 7 days.
  • Dastoor– COD and shipping charges may apply to certain items.

Offers & Coupons

Use code FIRSTORDER to get 10% off your first order.


You can also Earn up to 20% Cashback with POP Coins and redeem it in your future orders.

Read Sample

Customer Reviews

Based on 1 review
0%
(0)
0%
(0)
0%
(0)
100%
(1)
0%
(0)
A
Ameed Anjum

"سیاہ آئینے" خالد فاروقی کا پہلا ناول ہے جس میں فاروقی صاحب نے معاشرتی برائیوں کو نمایاں کرتے ہوئے مذاہب کی نفی کی ہے اور مذاہب کے زشت نقاط پے روشنی ڈالتے ہوئے مذاہب کو نوعِ انسانی کے تمام مصائب و مسائل کا ممبع قرار دیا ہے۔
کہانی کے آغاز میں قارئین ایک ہوٹل سے متعرف ہوتےہوئے اُس میں رہائش پذیر کردار کی خصلات سے متعرف ہوتے ہیں۔ اس دوران خاصہ تذکرہ ہوٹل کے غسل خانوں کا کیا گیا ہے جو گویا معاشرے میں قائم فاسق و فاسد رسومات کی تشبیہ کرتی ہیں۔ اُس کے بعد ہوٹل کے ایک کمرے میں ایک شیرخوار بچی کی لاش برامد ہوتی ہے جو غالبا کہانی کا نقطۂ مرکز ہونا چاہیے۔ پر کہانی یہاں سے اتنا پھیلتی ہے کہ اُس کو سمیٹنا اور سمجھنا بہت مشکل ہو جاتا ہے اور کہانی اپنے اختتام تک دم توڑ دیتی ہے۔ کہانی کے کرداروں کو ایک انجام کن اتمام نہیں مل پاتا اور کہانی اپنے اختتام میں الگ ہی نقاط پے مرکوز ہو کر رہ جاتی ہے۔
کہانی کا مرکزی کردار فیاضی ہے، جس نے اپنی آسودہ زندگی ترک کر کے ایک چوکیدار کی حیثیت سے ملازمت حاصل کی، تاکہ وہ اپنے فارغ وقت میں زندگی کے اسلوب کا تجزیہ کر سکے۔ مصنف نے اِس کردار کو عام قوائد سے منحرف رکھتے ہوئے زندگی اور معاشرے کے تعلق سے عجیب و غریب نظریہ دیا ہے اور اس کے ذریعے سے اپنے نطریاتِ دین و معاشرت کو قارئین کے سامنے رکھا ہے۔ اسی وجہ سے بعض جگہوں پے فیاضی کے مکالمات دو سے چار صفحات پے مشتمل ہیں اور بے وجہ ٹھوسے ہوئے معلوم پڑتے ہیں۔ فیاضی کے مخاصم کردار کا نام ہے عارف جس کو جنسیات سے متعلق کچھ غیر عمومی خواہشات اور ضروریات ہیں۔ کیا ہیں اُن کا سمجھ پانا مشکل ہے جز اس کے کی اُس کو حاملہ عورتوں سے ہم بستری کی شدید طلب ہے۔
ان کے الاوہ چند کردار اور ہیں۔ کوثر جو ایک طوائف ہے، اس کا مسلسل اصرار ہے کہ اس نے بشیر نام سے ایک لڑکے کو جنم دیا تھا جس کا باپ فیاضی ہے۔ بشیر کا کردار فیاضی سے رابطہ قائم کر کے اپنے اصل والدین کے بارے میں جاننا چاہتا ہے۔ اس کے سوا اور کردار عبث ہی ادھر ادھر بھتکے پھرتے ہیں اور اتفاقا ہی ایک دوسرے ٹکراتے رہتے ہیں۔
کہانی اکثر اپنے آپ میں بھٹک کر رہ جاتی ہے بے وجہ لمبے لمبے مکالمات میں الجھ جاتی ہے۔ اکثر کرداروں کو انجام کن اختتام نہیں ملتا۔ جیسے گامن نام کا ایک کردار، جس لمبی چوڑی بنیاد ڈالنے کے بعد کہاں چلا جاتا ہے کچھ پاتا نہیں۔ کلثوم جو کی عارف کی بیوی ہے اور رفعت جس سے عارف محبت کا دعویٰ کرتا ہے بہت ہی کمزور کردار لکھے گئے ہیں۔
کہانی کا سب سے کمزور حصہ اس کا اختتام ہے، کہانی اپنے اختتام پے بے وجہ مذہب کی بحث اور استدلال میں گھس جاتی ہے، جس کے لیے اختتام سے بس پہلے دو تین ایسائی کردار جوڑ دیے گئے ہں۔ تقریبا بیسیوں صفحات پے مشتمل یہ بحث کہانی سے کس طرح سے جوڑتی ہے اس کو سمجھ پانا مشکل ہے۔ پوری کہانی میں کہیں یہ ظاہر نہیں کیا گیا ہے کہ اس کے کردار کے عمل کہیں سے بھی مذہب سے متاثر ہیں۔ اگر داستاں گو کو اپنی کہانی کا مرکزی موضوع مذہب ہی رکھنا تھا تو کم از کم اُن کو کردار کی زندگی اور ان کے اعمال میں مذہبی ترغیب اور تشویق کو ظاہرا دکھانا چاہیے تھا کہ کس طرح سے مذہبی اسلوب ان کی زندگی کو پامال کر رہے ہیں۔ آخری نتیجہ کن بحث ان ہی کرداروں کے مابین ہونی چاہیے تھی جن کے ارد گرد کہانی بنی گئی تھی۔ میری سمجھ میں اس بحث میں اگر فیاضی اور کوثر آمنے سامنے آتے تو اِس کہانی کو بہتر انجام ملتا اور یہ پورا مکلامہ تھوپا ہوا نہیں لگتا۔
آخیر میں ایک بہترین موضوع پے یہ اوسط ناول بن کے رہ جاتا ہے۔

Related Products

Recently Viewed Products