EXTRA 10% OFF on 1st order. Code: FIRSTORDER, | FREE SHIPPING on All Orders (Over Rs 349)
A password reset email has been sent to the email address on file for your account, but may take several minutes to show up in your inbox. Please wait at least 10 minutes before attempting another reset.
تفصیلات بھریں
*صرف ہندوستان میں دستیاب ہے
ریختہ روزن تقریباً دو سو صفحات میں نئے اور پرانے ادب کی آمیزش سے آراستہ ہے۔ ان نگارشات کا اصل مقصد اس ادب کو منظرعام پر لانا ہے، جو وقت کے ساتھ پرانے رسائل کے بوسیدہ اوراق اور باریک لکھائی میں مقید ہو کر رہ گیا ہے۔ جن میں سے زیادہ تر اب دستیاب بھی نہیں ہے۔ ’ریختہ روزن‘ کے ذریعہ ہندوستان اور پاکستان کے نئے پرانے ادیبوں اور شعرا کو منظر عام پر لانا ہے۔ ادب کے نئے اور پرانے رجحانات اور اردو زبان کے بدلتے رخ ہماری سیاسی اور تہذیبی زندگی کا ورثہ ہیں، جن کی تکرار اور یکسانیت کے ذریعہ آنے والی دنیا کی سمت اور رفتار کا پتا ملتا ہے۔
ہما خلیل نے اردو سے انگریزی میں کئی ترجمے کئے ہیں، جن میں ان کے والد اردو کے مشہور نقاد اور شاعر خلیل الرحمٰن اعظمی کی کتاب ”اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک“بھی شامل ہے، جو انگریزی میں Many Summers apart کے عنوان سے شائع ہوئی۔ ان کی دوسری کتاب The Allure of Aligarh علی گڑھ کی Poetic life پر مبنی ہے۔ ہما خلیل نے خلیل الرحمن اعظمی کی کلیات’عروج فن‘ بھی مرتب کی۔ اور وہ خواتین کا رسالہ ’بزم ادب‘ کی بھی ایڈیٹر ہیں۔
شارب ردولوی ایک اہم ترین نقاد اور شاعر کی حیثیت سے معروف ہیں۔ ان کی پیدائش ردولی کے ایک زمیندار اور پڑھے لکھے گھرانے میں ہوئی۔ ان کے والد اور دادا کا شمار فارسی اور عربی کے بڑے عالموں میں ہوتا تھا۔ شارب ردولوی نے لکھنؤ یونیورسٹی سے اردو ادبیات کی اعلی تعلیم حاصل کی۔ پروفیسر سید احتشام حیسن کی نگرانی میں اپنا تحقیقی مقالہ ’ جدید اردو ادبی تنقید کے اصول ‘ کے موضوع پر لکھا۔ شارب ردولوی کے اس مقالے کا شمار اہم ترین تنقیدی کتابوں میں کیا جاتا ہے۔
شارب ردولوی نے دہلی یونیورسٹی کے دیال سنگھ کالج میں اردو کے استاد کی حیثیت سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ 1990 میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں بحیثیت ریڈر ان کا تقرر ہوا اور 2000 میں یہیں سے سبکدوش ہوئے۔
شارب ردولوی کے ادبی سفر کا آغاز شعر گوئی سے ہوا تھا ، انہوں نے بہت اچھی غزلیں کہیں لیکن دھیرے تنقید نگاری نے ان کی تخلیقی کارگزاریوں کو کم سے کم کردیا۔ شارب ردولوی کی کتابوں کے نام درج ذیل ہیں۔
’مراثیٔ انیس میں ڈرامائی عناصر‘ ’گل صد رنگ‘ ’جگر فن اور شخصیت‘ ’افکار سودا‘ ’مطالعہ ولی‘ ’تنقیدی مطالعے‘ ’انتخاب غزلیات سودا‘ ’اردو مرثیہ‘ ’معاصر اردو تنقید: مسائل ومیلانات‘ ’تنقیدی مباحث‘۔
جدید ترین افسانہ نگاروں میں ذکیہ مشہدی کا نام بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ ان کی کہانیاں اردو ہندی اور انگریزی تینوں زبانوں میں شائع ہو چکی ہیں ۔ ذکیہ مشہدی کی کہانیاں کسی نظریاتی کمٹمنٹ کے بغیر انسانی ہمدردی کا اعلانیہ ہیں ۔ زندگی اور آج کی دنیا میں پھیلے ہوئے انسانی محسوسات کو موضوع بناتے ہوئے انھوں نے کئی شاہکار افسانے خلق کئے ہیں ۔ ان کے متعدد افسانوی مجموعے شائع ہو چکے ہیں ، جن میں ’’پرائے چہرے‘‘، ’’تاریک راہوں کے مسافر‘‘ اور ’’صدائے بازگشت‘‘ خاص اہمیت کے حامل ہیں ۔
سابق وائس چانسلر جامعہ ملیہ اسلامیہ اور سینئر بیورو کریٹ جنھوں نے اپنی زندگی کا طویل حصہ مختلف ممالک میں گزارنے کے باوجود اردو ادب سے اپنی محبت اور عقیدت کو قائم رکھا۔
پر لطف انداز گفتگو کے مالک شاہد مہدی نے اپنی بیش بہا انتظامی صلاحیتیوں کے ساتھ تسلسل اور تواتر کے ساتھ اردو کی آبیاری میں ہمیشہ نہایت توجہ اور انہماک سے کام لیا ہے۔