پیش لفظ
**پیر کامل** کو میں نے آپ کے لیے لکھا ہے۔ آپ سب کی زندگی میں آنے والے اس موڑ کے لیے، جب روشنی یا تاریکی کے انتخاب کا فیصلہ ہم پر چھوڑ دیا جاتا ہے، ہم چاہیں تو اس راستے پر قدم بڑھا دیں جو روشن ہے اور چاہیں تو تاریکی میں داخل ہو جائیں۔
روشنی میں ہوتے ہوئے بھی انسان کو آنکھیں کھلی رکھنی پڑتی ہیں۔ اگر وہ ٹھوکر کھائے بغیر زندگی کا سفر طے کرنا چاہتا ہے تو تاریکی میں داخل ہونے کے بعد آنکھیں کھلی رکھیں یا بند، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ تاریکی ٹھوکروں کو ہماری زندگی کا مقدر بنا دیتی ہے۔
مگر بعض دفعہ تاریکی میں قدم دھرنے کے بعد ٹھوکر لگنے سے پہلے ہی انسان کو پچھتاوا ہونے لگتا ہے۔ وہ واپس اس موڑ پر آنا چاہتا ہے جہاں سے اس نے اپنا سفر شروع کیا تھا۔ تب صرف ایک چیز اس کی مدد کر سکتی ہے، کوئی آواز جو رہ نمائی کا کام کرے اور انسان اطاعت کے علاوہ کچھ نہ کرے۔
**پیر کامل** وہی آواز ہے، جو انسان کو تاریکی سے روشنی تک لا سکتی ہے اور لاتی ہے۔ اگر انسان روشنی چاہے تو۔ اور یقیناً ہدایت انہیں کو دی جاتی ہے جو ہدایت چاہتے ہیں۔
آیئے، ایک بار پھر **پیر کامل** کو سنیں!
عمیرہ احمد
umeraahmed@yahoo.com
باب: ا
"میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش؟" بال پوائنٹ ہونٹوں میں دبائے وہ سوچ میں پڑ گئی۔ پھر ایک لمبا سانس لیتے ہوئے قدرے بے بسی سے مسکرائی۔
"بہت مشکل ہے اس سوال کا جواب دینا۔"
"کیوں مشکل ہے؟" جویریہ نے اس سے پوچھا۔
"کیونکہ میری بہت ساری خواہشات ہیں اور ہر خواہش ہی میرے لیے بہت اہم ہے۔" اس نے سر جھٹکتے ہوئے کہا۔
وہ دونوں آڈیٹوریم کے عقبی حصے میں دیوار کے ساتھ زمین پر ٹیک لگائے بیٹھی تھیں۔ ایف ایس سی کلاسز میں آج ان کا آٹھواں دن تھا اور اس وقت وہ دونوں اپنے فری پیریڈ میں آڈیٹوریم کے عقبی حصے میں آکر بیٹھ گئی تھیں۔ نمکین مونگ پھلی کے دانوں کو ایک ایک کر کے کھاتے ہوئے جویریہ نے اس سے پوچھا:
"تمہاری زندگی کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے امامہ؟"
امامہ نے قدرے حیرانی سے اسے دیکھا اور سوچ میں پڑ گئی۔
"پہلے تم بتاؤ تمہاری زندگی کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے؟" امامہ نے جواب دینے کے بجائے الٹا سوال کر دیا۔
"پہلے میں نے پوچھا ہے، تمہیں پہلے جواب دینا چاہیے۔" جویریہ نے گردن ہلائی۔
"اچھا ٹھیک ہے، مجھے اور سوچنے دو۔" امامہ نے فوراً ہار مانتے ہوئے کہا۔ "میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش؟" وہ بڑبڑائی۔ "ایک خواہش تو یہ ہے کہ میری زندگی بہت لمبی ہو۔" اس نے کہا۔
"کیوں؟" جویریہ ہنسی۔
بس پچاس، ساٹھ سال کی زندگی مجھے بڑی چھوٹی لگتی ہے کم سے کم سو سال تو ملنے چاہئیں۔ انسان کو دنیا میں اور پھر میں اتنا سب کچھ کرنا چاہتی ہوں۔ اگر جلدی مرجاؤں گی تو پھر میری ساری خواہشات ادھوری رہ جائیں گی۔" اس نے مونگ پھلی کا ایک دانہ منہ میں ڈالتے ہوئے کہا۔ "اچھا اور؟" جویریہ نے کہا۔
"اور یہ کہ میں ملک کی سب سے بڑی ڈاکٹر بننا چاہتی ہوں۔ سب سے اچھی آئی اسپیشلسٹ میں چاہتی ہوں جب پاکستان میں آئی سرجری کی تاریخ لکھی جائے تو اس میں میرا نام ٹاپ آف دا لسٹ ہو۔" اس نے مسکراتے ہوئے آسمان کو دیکھا۔ "ہو۔ اور اگر کبھی تم ڈاکٹر نہ بن سکیں تو..." جویریہ نے کہا: "آخر یہ میرٹ اور قسمت کی بات ہے؟"
"ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔ میں اتنی محنت کر رہی ہوں کہ میرٹ پر ہر صورت آؤں گی۔ پھر میرے والدین کے پاس اتنا پیسہ ہے کہ میں اگر یہاں کسی میڈیکل کالج میں نہ جاسکی تو وہ مجھے بیرون ملک بھجوا دیں گے۔" امامہ نے قطعی انداز میں سر ہلاتے ہوئے ہتھیلی پر رکھے ہوئے دانوں میں سے ایک اور دانہ منہ میں ڈالا۔ "زندگی میں کچھ بھی ناممکن نہیں ہوتا۔ کبھی بھی کچھ بھی ہوسکتا ہے، فرض کرو کہ تم ڈاکٹر نہیں بن پاتیں تو؟ پھر تم کیا کروگی؟ کیسے ری ایکٹ کروگی؟" امامہ اب سوچ میں پڑ گئی۔ "پہلے تو میں بہت روؤں گی۔ بہت ہی زیادہ کئی دن اور پھر میں مرجاؤں گی۔"
"جویریہ بے اختیار ہنسی اور ابھی کچھ دیر پہلے تو تم یہ کہہ رہی تھیں کہ تم لمبی زندگی چاہتی ہو۔ اور ابھی تم کہہ رہی ہو کہ تم مرجاؤں گی۔" "ہاں تو پھر زندہ رہ کر کیا کروں گی۔ سارے پلانز ہی میرے میڈیکل کے حوالے سے ہیں اور یہ چیز زندگی سے نکل گئی تو پھر باقی رہے گا کیا؟"
"دیعنی تمہاری ایک بری خواہش دوسری بڑی خواہش کو ختم کر دے گی؟" "تم یہی سمجھ لو."