Look Inside
Reyt ki Lehrein aur Ankahi Batein
Reyt ki Lehrein aur Ankahi Batein
Reyt ki Lehrein aur Ankahi Batein
Reyt ki Lehrein aur Ankahi Batein
Reyt ki Lehrein aur Ankahi Batein
Reyt ki Lehrein aur Ankahi Batein
Reyt ki Lehrein aur Ankahi Batein
Reyt ki Lehrein aur Ankahi Batein
Reyt ki Lehrein aur Ankahi Batein
Reyt ki Lehrein aur Ankahi Batein

Reyt ki Lehrein aur Ankahi Batein

Regular price ₹ 229
Sale price ₹ 229 Regular price ₹ 249
Unit price
Save 8%
8% off
Tax included.
Size guide

Pay On Delivery Available

Rekhta Certified

7 Day Easy Return Policy

Reyt ki Lehrein aur Ankahi Batein

Reyt ki Lehrein aur Ankahi Batein

Regular price ₹ 229
Sale price ₹ 229 Regular price ₹ 249
Unit price
8% off
Cash-On-Delivery

Cash On Delivery available

Plus (F-Assured)

7-Days-Replacement

7 Day Replacement

Product description
Shipping & Return
Offers & Coupons
Read Sample
Product description

Abount the Book: The poems in this book are lively and melodious while being free. The language is simple. This book has a lot to say that touches the hearts of it's readers. This attitude of exploring new themes and presenting them in a new way guarantees the bright future of this kind of poetry.

Abount the Author: Dr. Abdullah belongs to an honorable family in Azamgarh. He started his educational journey at Shibli National College, Azamgarh. He then received his B.Sc. & M.Sc. degrees from Aligarh Muslim University and served as a lecturer in the departments of mathematics and statistics. He also has a PhD in M.S. and biostatistics from SUNY Buffalo and George Washington University.

Shipping & Return
  • Over 27,000 Pin Codes Served: Nationwide Delivery Across India!

  • Upon confirmation of your order, items are dispatched within 24-48 hours on business days.

  • Certain books may be delayed due to alternative publishers handling shipping.

  • Typically, orders are delivered within 5-7 days.

  • Delivery partner will contact before delivery. Ensure reachable number; not answering may lead to return.

  • Study the book description and any available samples before finalizing your order.

  • To request a replacement, reach out to customer service via phone or chat.

  • Replacement will only be provided in cases where the wrong books were sent. No replacements will be offered if you dislike the book or its language.

Note: Saturday, Sunday and Public Holidays may result in a delay in dispatching your order by 1-2 days.

Offers & Coupons

Use code FIRSTORDER to get 10% off your first order.


Use code REKHTA10 to get a discount of 10% on your next Order.


You can also Earn up to 20% Cashback with POP Coins and redeem it in your future orders.

Read Sample

ظالف چند
 برصغیر پر آزادی کا سورج جب طلوع تو ہوا مگر ایک گرہن کے ساتھ ۔۔۔ مذہب کے نام پر ملک
تقسیم ہوا۔ لاکھوں جانیں گئیں ۔ تہذیبوں اور زبانوں پر مذہب کی مہر لگ گئی۔
مشترک تہذیب کی دیوار ڈھے گئی اور اس تہذیب کی انمول دین اردو زبان دیوار کے ملبے تلے
سسکنے لگی۔
میں نے اس آزاد ہندوستان میں تعلیم پائی جب اردو اسکولوں اور کالجوں سے
اٹھ چکی تھی۔ میری
اردو کی رسمی تعلیم صرف لکھنے پڑھنے تک ہے جو بچپن میں مولوی صاحب نے قرآن پڑھاتے وقت د
تھی۔ کالج اور یونیورسٹی کی زندگی میں ادبی حلقوں میں اٹھنا بیٹھنا ضرور تھا۔ انھیں صحبتوں اور محفلوں سے.مجھ میں شعر سننے کا شوق اور سمجھنے کا شعور پیدا ہوا۔ ادب کے مطالعہ کا ذوق امریکہ آنے کے بعد بیدار ہوا۔
امریکہ میں اپنی زبان اور کلچر کو فروغ دینے کے جنون میں مشاعرہ سازی، شروع کی اور ساتھ میں شاعر
نوازی بھی۔ جہاں تک میری شاعری کا تعلق ہے، یہ میرے ذاتی تجربات اور احساسات کا مظہر ہے۔
اور اس کا رشتہ سلمان اختر کے اس شعر سے ہے:
اندر کا شور اچھا ہے تھوڑا دیا رہے
بہتر یہی ہے آدمی کچھ بولتا رہے
مجھ پر بھی ایک ایسا وقت آیا جب میں نے اندر کا شور دبانے کے لئے شاعری کو خود سے گفتگو کا
ذریعہ بنایا، جسے دوستوں نے از راہ محبت بیچ بیچ شاعری کا نام دے دیا۔ پھر مجھے مشاعروں میں بلایا
جانے لگا۔ اور میرے ضدی مشاعرہ باز دوست اختر نعیم نے مشاعروں میں بار بار لے جا کر مجھے

 

شاعروں کی صف میں شامل کر دیا۔ سامعین کی واہ واہ اور احمد ندیم قاسمی ، کیفی اعظمی، جگن ناتھ آزاد، راہی معصوم رضا اور پیرزادہ قاسم جیسے شعرا کی ہمت افزائی سے بڑی تقویت ملی۔ کچھ مدت بعد شعری مجموعے کا تقاضا بھی شروع ہو گیا۔ زیادہ بے تکلف لوگوں نے تقاضے کو مطالبے میں بدل دیا۔ جن میں سرفہرست میری اکلوتی سالی فردوس، میرے دوست سروج اور چندر جوشی اور میری پسندیدہ شاعرہ سیم سید کے نام شامل ہیں۔ نسیم نے مطالبہ کے ساتھ ساتھ ہر قدم پر میری رہنمائی بھی کی۔ ان کے علاوہ نیر آپانے اپنی خواہرا نہ شفقت کے ساتھ حوصلہ بڑھا بڑھا کر اور پروفیسر ستیہ پال آنند نے اپنے استادانہ چمتکار سے شاعری کے راز و نیاز سمجھا سمجھا کر آخر مجھے مجبور کر دیا کہ یہ فلمیں کاغذی چولا پہن لیں۔ نیر آپا اور ڈاکٹر آنند نے اپنی رائے سے مجھے اور میری شاعری کو نوازا۔ یہ میرے لئے باعث افتخار بھی ہے اور آئندہ تخلیقی کاوشوں کے لئے مشعل راہ بھی۔ اپنے پہلے شعری مجموعے ریت کی لہریں کی اشاعت کے سلسلے میں جو رہی سہی کسر تھی وہ دیگر دوستوں نے پوری کر دی۔ نفیر اعظم جو صحافی اور افسانہ نگار ہیں انھوں نے اپنے کمپیوٹر سے کتابت کر دی۔ یوسف مرزا صاحب جنھیں شاعری کا شوق اور خطاطی میں مہارت حاصل ہے، اور کمپیوٹر گرافس کے ماہر ہیں، انھوں نے سرورق ڈیزائن کر دیا۔ ڈاکٹر مسعود النبی خاں جو اچھے سائنسداں اور اچھے دوست ہیں، انہیں تصویریں اتارنے کا شوق بھی ہے۔ انھوں نے بیک پیج کے لئے تصویر کا انتظام کر دیا۔ غرض یہ کہ دوستوں نے مل کر اشاعت کے سارے مراحل سے بہ آسانی گزار دیا۔ اس طرح میری یہ خواہش بھی پوری ہو گئی کہ کتاب کی اشاعت کے سلسلے کا سارا کام امریکہ میں رہنے والے دوستوں کے ذریعہ ہو کیونکہ میری شاعری بھی امریکہ میں گزارے گئے شب و روز کا نتیجہ ہے۔ البتہ طباعت کی ذمہ داری وجیہہ الدین صاحب جگو ماموں) نے بڑی محبت سے اپنے سر لے لی۔ اور یہ کام ہندوستان میں ہو گیا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ان تمام لوگوں سے اظہار تشکر کن الفاظ میں کروں۔ محبتوں کے لئے شکریہ کا لفظ بہت چھوٹا ہے لیکن اس کے علاوہ کوئی لفظ بھی نہیں ہے اس لئے ان تمام دوستوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جن کی پر خلوص مدد کے بغیر اس کتاب کی اشاعت ممکن نہ تھی۔ ارادہ تھا کہ اس کتاب کا انتساب اپنے بیٹوں عامر اور فیصل کے نام کروں گا، اس امید پر کہ اس حوالے سے شاید ان میں اردو سیکھنے کی تحریک پیدا ہو سکے۔ لیکن اس دوران عامر اور فیصل کی نانی محترمہ عائشہ ملک ہمارے بیچ سے اُٹھ گئیں۔ میں انھیں خالہ کہتا تھا وہ ہمارے گھر کی رونق اور زندگی تھیں۔ ان کی

من موہنا شاعر

 میں ۱۹۸۶ء کے لگ بھگ واشنگٹن میٹرو پالیٹن ایریا میں وارد ہوا۔ اسی برس جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں منعقدہ ہندی شعر و ادب کی ایک نشست میں مجھے مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کیا گیا۔ یہاں جن اردو کے بہی خواہوں سے مجھے ملاقات کا شرف حاصل ہوا اُن میں ڈاکٹر عبد اللہ بھی تھے۔ اسے لوایٹ فرسٹ سائٹ کہیں یا میگنٹ اور لوہے کی کشش باہمی ، کہ اسی ملاقات میں موصوف نے مجھے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی المنائی ایسوسی ایشن کی ادبی سرگرمیوں سے متعلق ایک کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے ایک خصوصی نشست کے لئے راضی کر لیا۔ اب یہ امر طے ہونا مشکل ہے کہ ہم دونوں میں میگنٹ کون تھا اور لوہے کا ٹکڑا کون لیکن ایک نظریہ relativity کا بھی ہے، کہ دونوں اپنی جگہ اہم ہیں کیونکہ ایک کے بغیر دوسرے کی کارکردگی غیر ممکن ہے۔ علی گڑھ علم وادب کا گہوارہ ہے۔ وہاں کی ہوا میں سانس لینا بھی بجائے خود ایک صحت بخش عمل ہے۔ اور جس زمانے میں ڈاکٹر عبداللہ وہاں کے جیالوں میں شامل تھے، علی گڑھ اپنے پورے جوبن پر تھا۔ یہ بات تصور کی گرفت میں نہیں آسکتی کہ اُس زمانے میں ڈاکٹر عبد اللہ پر وہ رنگ نہ چڑھا ہو جو عشق و محبت کی رومان پروری کا زائدہ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ عشق و محبت میں نا کامی اور اُس ناکامی کے رد عمل یا عمل کے طور پر شعر خوانی ( اپنی یا دوسروں کی ) بھی اُسی سفر کا اگلا پڑاؤ ہے، اس لئے یہ قیاس نزد از حقیقت ہے کہ ڈاکٹر عبد اللہ کے ذہنی سفر میں اُس وقت کے علی گڑھ کی روایت کے عین مطابق عشق ( ابوالہوسی سے قطع نظر کو را، یکطرفہ افلاطونی عشق ) اُن کے ہم رکاب رہا ۔ عشق میں ناکامی اور اُس سے پیدا شدہ ذہنی کیفیت سے نپٹنے کے لئے شعر و شاعری تو طے شدہ امر تھا، اور یہ وقوع پذیر ہوا لیکن حیرت یہ تھی کہ یہ مجاز

Customer Reviews

Be the first to write a review
0%
(0)
0%
(0)
0%
(0)
0%
(0)
0%
(0)

Related Products

Recently Viewed Products