ظالف چند
برصغیر پر آزادی کا سورج جب طلوع تو ہوا مگر ایک گرہن کے ساتھ ۔۔۔ مذہب کے نام پر ملک
تقسیم ہوا۔ لاکھوں جانیں گئیں ۔ تہذیبوں اور زبانوں پر مذہب کی مہر لگ گئی۔
مشترک تہذیب کی دیوار ڈھے گئی اور اس تہذیب کی انمول دین اردو زبان دیوار کے ملبے تلے
سسکنے لگی۔
میں نے اس آزاد ہندوستان میں تعلیم پائی جب اردو اسکولوں اور کالجوں سے
اٹھ چکی تھی۔ میری
اردو کی رسمی تعلیم صرف لکھنے پڑھنے تک ہے جو بچپن میں مولوی صاحب نے قرآن پڑھاتے وقت د
تھی۔ کالج اور یونیورسٹی کی زندگی میں ادبی حلقوں میں اٹھنا بیٹھنا ضرور تھا۔ انھیں صحبتوں اور محفلوں سے.مجھ میں شعر سننے کا شوق اور سمجھنے کا شعور پیدا ہوا۔ ادب کے مطالعہ کا ذوق امریکہ آنے کے بعد بیدار ہوا۔
امریکہ میں اپنی زبان اور کلچر کو فروغ دینے کے جنون میں مشاعرہ سازی، شروع کی اور ساتھ میں شاعر
نوازی بھی۔ جہاں تک میری شاعری کا تعلق ہے، یہ میرے ذاتی تجربات اور احساسات کا مظہر ہے۔
اور اس کا رشتہ سلمان اختر کے اس شعر سے ہے:
اندر کا شور اچھا ہے تھوڑا دیا رہے
بہتر یہی ہے آدمی کچھ بولتا رہے
مجھ پر بھی ایک ایسا وقت آیا جب میں نے اندر کا شور دبانے کے لئے شاعری کو خود سے گفتگو کا
ذریعہ بنایا، جسے دوستوں نے از راہ محبت بیچ بیچ شاعری کا نام دے دیا۔ پھر مجھے مشاعروں میں بلایا
جانے لگا۔ اور میرے ضدی مشاعرہ باز دوست اختر نعیم نے مشاعروں میں بار بار لے جا کر مجھے
شاعروں کی صف میں شامل کر دیا۔ سامعین کی واہ واہ اور احمد ندیم قاسمی ، کیفی اعظمی، جگن ناتھ آزاد، راہی معصوم رضا اور پیرزادہ قاسم جیسے شعرا کی ہمت افزائی سے بڑی تقویت ملی۔ کچھ مدت بعد شعری مجموعے کا تقاضا بھی شروع ہو گیا۔ زیادہ بے تکلف لوگوں نے تقاضے کو مطالبے میں بدل دیا۔ جن میں سرفہرست میری اکلوتی سالی فردوس، میرے دوست سروج اور چندر جوشی اور میری پسندیدہ شاعرہ سیم سید کے نام شامل ہیں۔ نسیم نے مطالبہ کے ساتھ ساتھ ہر قدم پر میری رہنمائی بھی کی۔ ان کے علاوہ نیر آپانے اپنی خواہرا نہ شفقت کے ساتھ حوصلہ بڑھا بڑھا کر اور پروفیسر ستیہ پال آنند نے اپنے استادانہ چمتکار سے شاعری کے راز و نیاز سمجھا سمجھا کر آخر مجھے مجبور کر دیا کہ یہ فلمیں کاغذی چولا پہن لیں۔ نیر آپا اور ڈاکٹر آنند نے اپنی رائے سے مجھے اور میری شاعری کو نوازا۔ یہ میرے لئے باعث افتخار بھی ہے اور آئندہ تخلیقی کاوشوں کے لئے مشعل راہ بھی۔ اپنے پہلے شعری مجموعے ریت کی لہریں کی اشاعت کے سلسلے میں جو رہی سہی کسر تھی وہ دیگر دوستوں نے پوری کر دی۔ نفیر اعظم جو صحافی اور افسانہ نگار ہیں انھوں نے اپنے کمپیوٹر سے کتابت کر دی۔ یوسف مرزا صاحب جنھیں شاعری کا شوق اور خطاطی میں مہارت حاصل ہے، اور کمپیوٹر گرافس کے ماہر ہیں، انھوں نے سرورق ڈیزائن کر دیا۔ ڈاکٹر مسعود النبی خاں جو اچھے سائنسداں اور اچھے دوست ہیں، انہیں تصویریں اتارنے کا شوق بھی ہے۔ انھوں نے بیک پیج کے لئے تصویر کا انتظام کر دیا۔ غرض یہ کہ دوستوں نے مل کر اشاعت کے سارے مراحل سے بہ آسانی گزار دیا۔ اس طرح میری یہ خواہش بھی پوری ہو گئی کہ کتاب کی اشاعت کے سلسلے کا سارا کام امریکہ میں رہنے والے دوستوں کے ذریعہ ہو کیونکہ میری شاعری بھی امریکہ میں گزارے گئے شب و روز کا نتیجہ ہے۔ البتہ طباعت کی ذمہ داری وجیہہ الدین صاحب جگو ماموں) نے بڑی محبت سے اپنے سر لے لی۔ اور یہ کام ہندوستان میں ہو گیا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ان تمام لوگوں سے اظہار تشکر کن الفاظ میں کروں۔ محبتوں کے لئے شکریہ کا لفظ بہت چھوٹا ہے لیکن اس کے علاوہ کوئی لفظ بھی نہیں ہے اس لئے ان تمام دوستوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جن کی پر خلوص مدد کے بغیر اس کتاب کی اشاعت ممکن نہ تھی۔ ارادہ تھا کہ اس کتاب کا انتساب اپنے بیٹوں عامر اور فیصل کے نام کروں گا، اس امید پر کہ اس حوالے سے شاید ان میں اردو سیکھنے کی تحریک پیدا ہو سکے۔ لیکن اس دوران عامر اور فیصل کی نانی محترمہ عائشہ ملک ہمارے بیچ سے اُٹھ گئیں۔ میں انھیں خالہ کہتا تھا وہ ہمارے گھر کی رونق اور زندگی تھیں۔ ان کی
من موہنا شاعر
میں ۱۹۸۶ء کے لگ بھگ واشنگٹن میٹرو پالیٹن ایریا میں وارد ہوا۔ اسی برس جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں منعقدہ ہندی شعر و ادب کی ایک نشست میں مجھے مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کیا گیا۔ یہاں جن اردو کے بہی خواہوں سے مجھے ملاقات کا شرف حاصل ہوا اُن میں ڈاکٹر عبد اللہ بھی تھے۔ اسے لوایٹ فرسٹ سائٹ کہیں یا میگنٹ اور لوہے کی کشش باہمی ، کہ اسی ملاقات میں موصوف نے مجھے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی المنائی ایسوسی ایشن کی ادبی سرگرمیوں سے متعلق ایک کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے ایک خصوصی نشست کے لئے راضی کر لیا۔ اب یہ امر طے ہونا مشکل ہے کہ ہم دونوں میں میگنٹ کون تھا اور لوہے کا ٹکڑا کون لیکن ایک نظریہ relativity کا بھی ہے، کہ دونوں اپنی جگہ اہم ہیں کیونکہ ایک کے بغیر دوسرے کی کارکردگی غیر ممکن ہے۔ علی گڑھ علم وادب کا گہوارہ ہے۔ وہاں کی ہوا میں سانس لینا بھی بجائے خود ایک صحت بخش عمل ہے۔ اور جس زمانے میں ڈاکٹر عبداللہ وہاں کے جیالوں میں شامل تھے، علی گڑھ اپنے پورے جوبن پر تھا۔ یہ بات تصور کی گرفت میں نہیں آسکتی کہ اُس زمانے میں ڈاکٹر عبد اللہ پر وہ رنگ نہ چڑھا ہو جو عشق و محبت کی رومان پروری کا زائدہ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ عشق و محبت میں نا کامی اور اُس ناکامی کے رد عمل یا عمل کے طور پر شعر خوانی ( اپنی یا دوسروں کی ) بھی اُسی سفر کا اگلا پڑاؤ ہے، اس لئے یہ قیاس نزد از حقیقت ہے کہ ڈاکٹر عبد اللہ کے ذہنی سفر میں اُس وقت کے علی گڑھ کی روایت کے عین مطابق عشق ( ابوالہوسی سے قطع نظر کو را، یکطرفہ افلاطونی عشق ) اُن کے ہم رکاب رہا ۔ عشق میں ناکامی اور اُس سے پیدا شدہ ذہنی کیفیت سے نپٹنے کے لئے شعر و شاعری تو طے شدہ امر تھا، اور یہ وقوع پذیر ہوا لیکن حیرت یہ تھی کہ یہ مجاز