1 اپنے جذبات سے جدا ہونا
2 کہیں بہار کہیں پر خزاں کا موسم ہے
3 اب اعتبار نہیں میری جاں کسی کا نہیں
4 مشکل ہے لیکن آسانی ایک سی لگتی ہے
5 دھواں ہونے کے دھوکے میں نہ رہنا
6 اپنے اندر کی طرف لوٹتے ہیں
7 باتوں باتوں میں ٹوٹ جاتے ہیں
8 خود کو فرہاد کرکے دیکھ لیا
9 اپنی تنہائی کو بازار سمجھتے رہے ہم
10 شکست ذات کا طوفان بھی تو دیکھنا تھا
11 جنوں میں انتہا ہونے سے پہلے
12 گردِ مہتاب کا یارا تو کیا ہوتا کبھی
13 جاں کی بازی میں بہت شورِ زیاں اٹھتا ہے
14 ختم ہوگی کب یہ وحشت اے خدا کب فیصلہ ہوگا
15 ہے عجیب رشتہ ٔ گم شدہ کہ جسے کھنڈر نے بھلا دیا
16 سنا ہے پیاس کی تکمیل ہونے والی ہے
17 شب کے ملبے پہ رکھ دیا میں نے
18 یہ جو داغ دل میں ہیں جا بہ جا یہ کمال ہے
19 آندھیاں شور مچاتی ہیں کہ طاری ہوئی رات
20 خاک سے مل کر صدائے خاروخس پوری ہوئی
21 دل یہی کہتا ہے ہردم ، کوئی دھوکا ہواہے
22 دل کو وحشت میں سکوں ہے ، یوں ہے
23 سینے میں تیری یاد بہانے سے رہ گئی
24 آندھی کا امکان بھی تو ہوسکتا تھا
25 خوف ہے ، دھند بھری رات ہے ، تنہائی ہے
26 عشق ہوتا ، نہ کچھ کمی ہوتی
27 شوقِ آوارگی عجب شے ہے
28 آتے آتے جو ترا نام سا رہ جاتا ہے
29 میں ہوں کہ میری بے خودی ، تو ہے کہ تیری یاد ہے
30 خوشبو سی تحلیل ہوئی سانسوں کے تانے بانے میں
31 اور مجھ سے یہ اذیت نہیں دیکھی جاتی
32 سانسوں میں کوئی خون سا دریا ہے کہ میں ہوں
33 صدائے آب سے پہلے ، صدائے آب کے بعد
34 آباد خرابے میں ذرا دیر لگے گی
35 جہاں میں کچھ نہیں مشکل، اگر کیا جائے
36 جاں نکلنی تھی مجھے درد سے مر جانا تھا
37 اہتمامِ خس و خاشاک سے بہتر تو نہیں
38 حسرت گہِ ذلت میں اترنے سے رہا میں
39 تحلیل ہوئی شب کی سیاہی میں صدا تک
40 آسمانوں کو تہِ آب نہیں کرسکتے
41 یہ تو سوچا ہی نہ تھا یخ بستہ لمحوں کا سکوت
42 زنجیر محبت نے رہائی نہیں دی
43 قیمت حرمت دل، حرفِ دعا کچھ بھی نہیں
44 دشت دیکھا نہیں صحرا نہیں مانگا ہم نے
45 کچھ دیر تو اس عقل کو آرام دیا جائے
46 دل دھڑکتا ہے تو سب زیرو زبر لگتا ہے
47 آج کچھ صورتِ افلاک جدا لگتی ہے
48 اس سے نسبت ہے مگر رابطہ کوئی نہیں ہے
49 گھٹن کے غار میں سرگوشیوں کا سایہ ہے
50 صحراؤں میں خاک اڑی ہے آنکھوں میں ویرانی رات
51 دل سے وابستہ زمینوں کی صدا بہتر تھی
52 ہے تار تار جنون وفا میں رشتہ ٔ خاک
53 کچھ نہیں ہونے میں ہونے کی مسرت کیسی
54 نفس نفس میں بدلتا ہوا سا کچھ تو ہے
55 حادثے نہیں ہوئے کہ تجربہ نہیں ہوا
56 چاند نکلا تو خموشی کو زباں مل سی گئی
57 ایک ہنگامہ شب و روز بپارہتاہے
58 ایک بے چہرگی کا ماتم ہے
59 مشک پھیلے کہیں لوبان کی خوشبو جاگے
60 ہجوم گریہ نے اک خامشی مسلط کی
61 جو رات بن کے ترے سامنے سے گزرا تھا
62 دھوکا ہے ، نمائش ہے ، تماشا ہے ، گزر جا
63 آنکھوں میں شب اتر گئی خوابوں کا سلسلہ رہا
64 کس کے حصے میں حیرت تھی کس کو جشن منانا تھا
65 کرب کی مٹی درد کے پانی سے اک رستہ نکلا تھا
66 وہ منظر بے نور تھا اے جانِ جاں یہ خواب ہے
67 نقطہ نقطہ چن کر اپنے لفظوں کو تصویر کیا
68 بے وقت ہی گھل جائے گی مٹی میں نمی ہے
69 سکوتِ شب نے پکارا تو سب نکل آئے
70 ہم اپنے آپ سے مل کر بکھر سے جاتے ہیں
71 دونوں ہاتھوں سے لٹانے کا سفر
72 اک خلا ہے وہ جب سے بچھڑا ہے
73 رات ، ہَوا ، ہے سناٹا
74 سرد راتوں میں تمازت کا سبب پوچھتی ہے
75 آگ ، پانی ، ہوا ، غبار آیا
76 زندگی سفر پر ہے
77 قلندر سوچتا ہے
78 قطرہ قطرہ مری آنکھوں میں لہو اترا ہے
79 میں نے کھویا ہے تجھے یا کہ تجھے پایا ہے
80 اب وہ عالم ہے کہ دیوار نہ در آتا ہے
81 رس گھولتے شیریں لفظوں کی تاثیر سے خوشبو آتی ہے
82 چند لمحوں کی جدائی کا عذاب ایسا ہے
83 یہ معجزہ ہے کہ میں رات کاٹ دیتا ہوں
84 جو بھی آتا ہے یہاں شہربدر لگتا ہے
85 یہ زندگی جو مجھے اجنبی سی لگتی ہے
86 مجھے یاد ہے وہ موسم ، وہ خزاں بہار کرنا
87 ترے خیال کی سب تتلیوں کو آج کی شام
88 قافلے میں عجیب چہرے تھے
89 زندگی کے اداس لمحے تھے
90 سر رشتہ ٔ مجاز میں گوندھی گئی ہے خاک
91 رات کی میلی سانسوں میںجب گرم ہوا سی چلتی ہے
92 اس اہتمام سے تجھ کو کبھی پکاروں گا
93 رات کی آنکھوں نے دیکھا ہر خواب جنوں سامانی کا
94 راتوں رات ہی فانی ہونا پڑتا ہے
95 زندگی نے کچھ اس طرح وحشتوں کا صلہ دیا
96 نشے میں ڈوب کے زخم صدا ہوئے بھی تو کیا
97 جانے کتنا وقت لگے گا خود سے باہر آنے میں
98 میری آنکھوں میں سوالوں کے سوا کچھ بھی نہیں
99 نگار خانۂ آتش ہوا ہے سارا بدن
100 مٹھیاں ریت سے بھر لی ہیں تو کہتی ہے ہوا
101 کیا بات ہوئی کہ سارے منظر ڈوب گئے حیرانی میں
1
اپنے جذبات سے جدا ہونا
اپنے جذبات سے جدا ہونا
کتنا آسان ہے خدا ہونا
سخت مشکل تھا خانۂ دل میں
میری ہر سانس کا صدا ہونا
میری لہریں خلاف ہیں مجھ سے
آج مشکل ہے ناخدا ہونا
2
کہیں بہار کہیں پر خزاں کا موسم ہے
کہیں بہار کہیں پر خزاں کا موسم ہے
تمام شہر میں سودوزیاں کا موسم ہے
نہ راس آئے گی ہم کو ابھی یہ آب و ہوا
جہاں کے ہم ہیں نظر میں وہاں کا موسم ہے
ہوا کی زد بھی وہی ہے، دیے کی ضد بھی وہی
عجب حکایت ِ شب زادگاں کا موسم ہے
کڑکتی بجلیاں ، ابرِ سیاہ، بارشِ سنگ
زمیں سے کہہ دو ابھی آسماں کا موسم ہے
فضا میں عطر سی خوشبو گھلے گی اور ابھی
ابھی فسانۂ دلدادگاں کا موسم ہے
چھلک رہے ہیں سبھی درد مہرباں ہوکر
اٹھاؤ ہاتھ کہ آزارِ جاں کا موسم ہے
اب اس کے بعد زمیں رفتہ رفتہ ہوگی سیاہ
ابھی ہے سرخ کہ یہ کشتگاں کا موسم ہے
یقین ہے کہ نئے برگ و بار آئیں گے
یقیں کے شہر میں اب کے گماں کا موسم ہے
نگاہِ شب میں شب ِ رفتگاں گزار آئے
نگاہِ صبح میں آئندگاں کاموسم ہے
3
اب اعتبار نہیں میری جاں کسی کا نہیں
اب اعتبار نہیں میری جاں کسی کا نہیں
چراغ سب کے لیے ہے دھواں کسی کا نہیں
لکیریں کھینچ رہے ہیں سبھی زمینوں پر
زمیں کسی کی نہیں آسماں کسی کا نہیں
اب اختیار زمانے پہ ہے نہ اس دل پر
کمال یہ ہے کہ کوئی یہاں کسی کا نہیں
اڑا کے لے گئی پاگل ہوا زمانے کو
سبھی نے دیکھا کہ آب رواں کسی کا نہیں
مقامِ وصل سے آگے ہے لامکاں کا سفر
حدودِ وقت سے آگے نشاں کسی کا نہیں